نیویارک،10جون(آئی این ایس انڈیا)سعودی عرب نے اس امر کی دوٹوک الفاظ میں تردید کی ہے کہ اس نے اقوام متحدہ پر دباو ڈالنے کی غرض سے انسانی امداد میں کٹوتی کی کوئی دھمکی دی ہے تاکہ سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد کا نام بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ممالک اور گروپوں کی فہرست سے نکلوایا جاسکے۔اقوام متحدہ میں متعیّن سعودی عرب کے سفیر عبداللہ المعلمی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم دھمکیوں یا دھونس کو استعمال نہیں کرتے ہیں اور ہم نے فنڈنگ سے متعلق بھی کوئی بات نہیں کی ہے‘۔انھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بین کی مون نے سعودی عرب کی وضاحت کا غلط مطلب لیا ہے اور انھوں نے اس کو ایک دھمکی سمجھا ہے۔’میں آپ کو یقین دلانا چاہتاہوں کہ ڈرانا ،دھمکانا ہمارا طرزعمل اور ثقافت نہیں ہے۔ہم اقوام متحدہ کے اداروں ،اس کے سیکریٹریٹ کا بہت احترام کرتے ہیں اور یقینی طور پر بین کی مون کا بھی احترام کرتے ہیں‘۔عبداللہ المعلمی نے اس بات کی تردید کی کہ ان کی حکومت نے اقوام متحدہ پر فیصلہ واپس لینے کے لیے دباو ڈالا ہے اور انسانی امداد کی شکل میں دیے جانے والے کروڑوں ڈالرز روک لینے کی دھمکی دی تھی۔انھوں نے کہا کہ سعودی عرب اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پُرعزم ہے اور وہ عالمی ادارے کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع نہیں کرسکتا کیونکہ وہ اس کے بانی ارکان میں سے ایک ہے۔قبل ازیں سلامتی کونسل میں متعیّن ایک سفارت کار نے کہا تھا کہ سعودیوں نے بین کی مون پر فیصلہ تبدیل کرانے کے لیے اپنے حامیوں کے ذریعے بہت زیادہ دباو ڈلوایا ہے اور انھوں نے خاص طور پر اقوام متحدہ کے تحت فلسطینیوں کی امدادی ایجنسی انروا کو دی جانے والی رقوم بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔اس حوالے سے سعودی سفیر نے کہا’ہم نے یہ کہا تھا کہ سعودی عرب اور اتحاد کے ساتھ اس طرح کے غیر منصفانہ سلوک اور اس کا ممنوعہ فہرست میں شمار کرنے سے ہمارے اقوام متحدہ کے ساتھ تعلقات پر اثرات مرتب ہوں گے لیکن ہم نے اُنروا یا کسی اور کے فنڈز روکنے سے متعلق کوئی بات نہیں کی تھی‘۔انھوں نے کہا’میں سیکریٹری جنرل کا بہت احترام کرتا ہوں۔انھوں نے اس تمام گفتگو کا کیا مفہوم سمجھا ہے اور اس کی کیا تشریح کی ہے،یہ اب ان پر منحصر ہے‘۔عبداللہ المعلمی نے واضح کیا کہ اقوام متحدہ کی جس رپورٹ میں سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد کو بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب قرار دیا گیا ہے،وہ سعودی عرب سے مشاورت کے بغیر مرتب کی گئی تھی۔انھوں نے بتایاکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 2005ء میں منظورکردہ قرارداد نمبر 1612 میں ایک واضح طریق کار دیا گیا ہے مگر اس رپورٹ کو مرتب کرتے وقت اس کی پاسداری نہیں کی گئی ہے۔اس طریق کار میں واضح کیا گیا ہے کہ متعلقہ حکومت،علاقائی اور ذیلی علاقائی تنظیموں سے مشاورت کی جائے گی مگر ایسا نہیں کیا گیا ہے۔اس لیے رپورٹ میں جمع کردہ معلومات یک طرفہ ہیں۔ انھوں نے صحافیوں کو مزید بتایا کہ ’سعودی حکومت یا اتحاد میں شامل دوسرے رکن ممالک کی حکومتوں سے رپورٹ سے متعلق کوئی ابلاغ نہیں کیا گیا تھا،یمن کی قانونی حکومت سے بھی کوئی مشاورت نہیں کی گئی تھی۔اس لیے اس تمام عمل میں جمع کردہ معلومات کے معیار پر شُبہ ہے‘۔المعلمی کا کہنا تھا کہ سعودی اتحاد کانام غیر مشروط اور حتمی طور پر فہرست سے نکالا گیا ہے۔اس کو اب تبدیل نہیں کیا جاسکتا اور سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد کا ممنوعہ فہرست سے اخراج اقوام متحدہ کی ساکھ کے تحفظ کا بھی مظہر ہے۔اگر اتحاد کا نام اس فہرست میں برقرار رکھا جاتا تو اس سے عالمی ادارے کی ساکھ ختم ہو کر رہ جاتی۔واضح رہے کہ اقوام متحدہ نے یمن میں حوثی شیعہ ملیشیا کے خلاف جنگ آزما سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد کو ان مملک اور گروپوں کی بلیک لسٹ سے نکال دیا ہے جو تنازعات میں بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے ہیں یا ہورہے ہیں۔